کردار زندگی کی جبینوں میں جڑ گئے
جس عمدگی کے ساتھ وہ افسانے گھڑ گئے
لہروں کی جنگ ریت کا نقصان کر گئی
اور چودھویں کی رات کو ساحل بچھڑ گئے
وہ شخص اٹھ کے چل دیا جب ان کی چھاؤں سے
ہائے تمام پیڑ جڑوں سے اکھڑ گئے
اک چیختا سکوت مسلط تھا باغ پر
سہمے ہوئے درخت تحیر میں پڑ گئے
ذہنی فتور عشق کو برباد کر گیا
دونوں انا پرست تھے سو ضد پہ اڑ گئے
صد شکر آپ سا بھی معوذ نہیں کوئی
تھوڑا بلند کیا ہوئے تیور بگڑ گئے
معوذ حسن
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…