رقصِ وحشت شعار ہے میرا

رقصِ وحشت شعار ہے میرا
گردِ صحرا غبار ہے میرا

کوئی زنجیرِ پا نہیں لیکن
قیدیوں میں شمار ہے میرا

جل رہے ہیں ضرورتوں کے چراغ
گھر نہیں ہے مزار ہے میرا

زخم اپنے کرید سکتا ہوں
جبر پر اختیار ہے میرا

جس طرف چاہوں گھوم لیتا ہوں
میری ایڑی مدار ہے میرا

ہے سبک دوش کوئی مجھ ایسا؟
میرے شانوں پہ بار ہے میرا

کُھل کے اک سانس بھی نہ لی میں نے
زندگی پر ادھار ہے میرا

بھاگتا ہوں پرے حقیقت سے
شعر گوئی فرار ہے میرا

پیرہن ہے دُھلا ہوا گویا
تن بہت داغ دار ہے میرا

ورنہ میں کب کا مر چکا ہوتا
دل پہ کب انحصار ہے میرا

آئینے میں بھی مَیں نہیں موجود
اور تجھے انتظار ہے میرا

سوچتا ہوں، دوبارہ سوچتا ہوں
کوئی پروردگار ہے میرا؟

میں ہوں مزدورِ کارِ رشتہ و ربط
ہر کوئی ٹھیکہ دار ہے میرا

شعر کہتا ہوں جی جلاتا ہوں
اب یہی روزگار ہے میرا

رائیگانی خرید کرتا ہوں
منفرد کاروبار ہے میرا

عارف امام

Haseeb Ahmed

Recent Posts

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…

3 years ago

اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام

اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…

3 years ago

سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا

سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا

3 years ago

دلِ گمشدہ

دلِ گمشدہ ! کبھی مل ذرا Continue readingدلِ گمشدہ

3 years ago

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…

3 years ago

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…

3 years ago