جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جو محبتوں کی اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل وہی لوگ میرے ہیں ہم سفر
مجھے ہر طرح سے جو راس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستائیں گے
مری عمر بھر کی جو پیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
یہ خیال سارے ہیں عارضی یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گل آرزو کی جو باس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جنہیں کر سکا نہ قبول میں وہ شریک راہ سفر ہوئے
جو مری طلب مری آس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
مری دھڑکنوں کے قریب تھے مری چاہ تھے مرا خواب تھے
وہ جو روز و شب مرے پاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
اعتبار ساجد
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…