اپنے گھر کے , در و دیوار سے , ڈر لگتا ہے
گھر کے باہر , تیرے گلزار سے , ڈر لکتا ھے
فاصلے بن گئے , تکمیلِ محبت , کا سبب
وصلِ جاناں سے , رُخِ یارسے , ڈر لگتا ھے
اُسکی یادوں سے ھی تسکینِ تصور کرلوں
اب مجھے , محفلِ دلدار سے , ڈر لگتا ھے
سارے تبدیل ہوئے , مہر و وفا کے دستور
چاہنے والوں کے , اب پیار سے ڈر لگتا ھے
خوشبووں, لذتوں, رنگوں میں خوف پنہاں ھے
برگ سے , پھول سے, اشجار سے ڈر لگتا ھے
تھی کسی دور علیلوں کی عیادت واجب
لیکن اب , قربتِ بیمار سے , ڈر لگتا ھے
جنکی آمد کو سمجھتے تھے خداکی رحمت
ایسے مہمانوں کے , آثار سے , ڈر لگتا ھے
اب تو لگتا ھے, میرا ہاتھ بھی اپنا نہ رہا
اس لئے , ہاتھ کے تلوار , سے ڈر لگتا ھے
تن کےکپڑے بھی عدو, پیر کے جوتے دشمن
سر پہ پہنے ہوئے , دَستار سے ڈر لگتا ھے
جو گلے مل لے میری جان کا دشمن ٹھہرے
اب , ہر اک , یارِ وفادار سے , ڈر لگتا ھے
ایک نادیدہ سی ہستی نے جھنجوڑا ایسے
خلق کو , گنبد و مینار , سے ڈر لگتا ھے
بن کے ماجوج , نمودار ہوا , چاروں اوڑ
اِسکی یاجوج سی, رفتار سے, ڈر لگتا ھے
عین ممکن ھے یہاں سب ہوں کورونا آلود
شہر کے. کوچہ و بازار سے ڈر لگتا ھے
خوف آتا ھے صحیفوں کی تلاوت سے اب
ہر رسالے سے , ہر اخبار سے , ڈر لگتا ھے
اب تو اپنوں سے مصافحہ بھی پُر خطر ھے وھاب
یوں نہیں ھےکہ فقط اغیار سے, ڈر لگتا ھے
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…