یہاں نفس نفس ملول ہے یہ فضول ہے
یہ جو زندگی کا اصول ہے یہ فضول ہے
میں نہیں ہوں قابلِ آرزو ، مرے مبتلا
ترے ہاتھ سرخ جو پھول ہے یہ فضول ہے
یہ جو تیرے جسم کی راکھ ہے سوا لاکھ ہے
یہ جو میرے ملبے کی دھول ہے یہ فضول ہے
جو بصارتوں کا وصال ہو تو کمال ہو
جو سماعتوں کا حصول ہے یہ فضول ہے
یہی بات کہتا رہوں گا پورے وثوق سے
کہ جو بغضِ آل رسول ہے یہ فضول ہے
مجھے اپنے آپ سے نفی کرنے کا سوچ مت
یہ فضول ہے ، یہ فضول ہے ، یہ فضول ہے
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…