ہے خرد مندی یہی باہوش دیوانہ رہے
ہے وہی اپنا کہ جو اپنے سے بیگانہ رہے
کفر سے یہ التجائیں کر رہا ہوں بار بار
جاؤں تو کعبہ مگر رخ سوئے مے خانہ رہے
شمع سوزاں کچھ خبر بھی ہے تجھے او مست غم
حسن محفل ہے جبھی جب تک کہ پروانہ رہے
زخم دل اے زخم دل ناسور کیوں بنتا نہیں
لطف تو جب ہے کہ افسانے میں افسانہ رہے
ہم کو واعظ کا بھی دل رکھنا ہے ساقی کا بھی دل
ہم تو توبہ کر کے بھی پابند میخانہ رہے
آخرش کب تک رہیں گی حسن کی نادانیاں
حسن سے پوچھو کہ کب تک عشق دیوانہ رہے
فیض راہ عشق ہے یا فیض جذب عشق ہے
ہم تو منزل پا کے بھی منزل سے بیگانہ رہے
مے کدہ میں ہم دعائیں کر رہے ہیں بار بار
اس طرف بھی چشم مست پیر میخانہ رہے
آج تو ساقی سے یہ بہزادؔ نے باندھا ہے عہد
لب پہ توبہ ہو مگر ہاتھوں میں پیمانہ رہے
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…