ہم اس جہان سے ارمان لے کے جائیں گے،
خدا کے گھر یہی سامان لے کے جائیں گے
یہ ولولے تو میری جان لے کے جائیں گے
یہ ذوق شوق تو ایمان لے کے جائیں گے
وہ وقت نزع نہ آئیں عدو کے کہنے سے،
ہم اور غیر اک احسان لے کے جائیں گے
بیاں کریں گے ترے ظلم ہم قسم کھا کر
خدا کے سامنے قرآن لے کے جائیں گے
چڑھی نہ تربت مجنوں پہ آج چادر
ہم اپنا چاکِ گریبان لے کے جائیں گے
ہمیں یہ فکر ہے کہ دل سوچ سمجھ کے دیں
اُنہیں یہ ضد اسی آن لے کے جائیں گے
صنم کدے کے ہوےہم نہ مئے کدے کے ہوئے
یہ داغ دل میں مسلمان لے کے جائیں گے
بھرے ہیں کعبہ دل میں حسرت و ارمان
مراد اپنی یہ مہمان لے کے جائیں گے
لگا کے لائیں ہیں غیروں کو آپ اپنے ساتھ
یہاں سے کیا یہ نگہبان لے کے جائیں گے
بغیر وصل کا وعدہ لیے نہ ٹلیں گے ہم
یہ عہد لے کے یہ پیمان لے کے جائیں گے
پھنسا رہے گا دل مبتلا تو دنیا میں
گناہ کس میں پھر انسان لے کے جائیں گے
کچھ آگیا میرے آگےدیا لیا میرا
یقین تھا وہ میری جان لے کے جائیں گے۔
داغ دہلوی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…