چشم میگوں ذرا ادھر کر دے
دست قدرت کو بے اثر کر دے
تیز ہے آج درد دل ساقی
تلخی مے کو تیز تر کر دے
جوش وحشت ہے تشنہ کام ابھی
چاک دامن کو تا جگر کر دے
میری قسمت سے کھیلنے والے
مجھ کو قسمت سے بے خبر کر دے
لٹ رہی ہے مری متاع نیاز
کاش وہ اس طرف نظر کر دے
فیضؔ تکمیل آرزو معلوم
ہو سکے تو یوں ہی بسر کر دے
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…