پاؤں کا دھیان تو ہے راہ کا ڈر کوئی نہیں
مجھ کو لگتا ہے مرا زادِ سفر کوئی نہیں
بعض اوقات تو میں خود پہ بہت چیختا ہوں
چیختا ہوں کہ اُدھر جاؤ جدھر کوئی نہیں
سر پہ دیوار کا سایا بھی اُداسی ہے مجھے
ظاہراً ایسی اداسی کا اثر کوئی نہیں
آخری بار مجھے کھینچ کے سینے سے لگا
اور پھر دیکھ مجھے موت کا ڈر کوئی نہیں
خودکشی کرتے سمے پوچھتا ہوں میرا عزیز؟
اور آواز سی آتی ہے تُو مَر ! کوئی نہیں
بھری دنیا ہے سسکنے میں جھجک ہو گی تمہیں
یہ مرا دل ہے ادھر رو لو ادھر کوئی نہیں
ایک دن لوگ مجھے تخت نشیں دیکھیں گے
یا یہ دیکھیں گے مرا جسم ہے سَر کوئی نہیں
اُس کی ہجرت بڑا اعصاب شکن سانحہ تھی
شہر تو شہر ہے جنگل میں شجر کوئی نہیں
صبح سے رات کی مایوسی بھگانے کا سبب
کوئی تو ہوتا مرے دوست مگر کوئی نہیں
بے خیالی سی مجھے گود میں بھر لیتی ہے
در پہ دستک ہو تو کہہ دیتا ہوں گھر کوئی نہیں
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…