وحشت میں نکل آیا ہوں ادراک سے آگے
اب ڈھونڈ مُجھے مجمعِ عُشاق سے آگے
اک سُرخ سمندر میں ترا ذکر بہت ہے
اے شخص گُزر ! دیدۂ نمناک سے آگے
اُس پار سے آتا کوئی دیکھوں تو یہ پُوچھوں
افلاک سے پیچھے ہوں کہ افلاک سے آگے
دم توڑ نہ دے اب کہیں خواہش کی ہوا بھی
یہ خاک تو اُڑتی نہیں خاشاک سے آگے
جو نقش اُبھارے تھے مٹانے بھی ہیں اُسنے
در پیش پھر اک چاک ہےاس چاک سے آگے
ہم زاد کی صُورت ہے مرے یار کی صُورت
مَیں کیسے نکل سکتا ہوں چالاک سے آگ
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…