میں کھولتا ہوں درِ دل ، اگر کوئی آ جائے
پر اس کا یہ نہیں مطلب کہ ہر کوئی آ جائے
میں اندھا بن کے گزرتے ہووؤں کو دیکھتا تھا
میں چاہتا تھا مجھے دیکھ کر کوئی آ جائے
کروں گا آج تلافی، سو، مجھ سمیت، اگر
کسی کو پہنچا ہو مجھ سے ضرر کوئی، آ جائے !
میں اُس کو دیکھ کے رستے میں یوں رکا، جیسے
سڑک کے بیچ ،اچانک شجر کوئی آ جائے
یوں آئی وصل کے دوران ایک ہجر کی یاد
کہ جیسے چھٹی کے دن کام پر کوئی آ جائے
یوں آئنے کے مقابل ہوں دم بخود، جیسے
کسی کو دیکھنا ہو اور نظر کوئی آ جائے
یہ سوچ کر نہیں دیتا میں تجھ کو دل میں جگہ
یہی نہ ہو کہ ترے ساتھ ڈر کوئی آ جائے
عمیر نجمی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…