مُشک پس ِ رخسار بھی اچھی لگتی ہے
زلف کی یہ مہکار بھی اچھی لگتی ہے
خوشبو دیتے پھول بھی دل کو بھاتے ہیں
پھولوں کی سردار بھی اچھی لگتی ہے
ہاتھ پہ رکھے ہاتھ وہ چاہے بیٹھی ہو
گھر میں وہ بےکار بھی اچھی لگتی ہے
اُس کے ہر اک شر سے خیر نکالا ہے
وہ آفت آثار بھی اچھی لگتی ہے
اُس کے ہر انکار میں ہے اقرار چھپا
کرتی وہ انکار بھی اچھی لگتی ہے
‘جان’ مجھے اب چاہے وہ سو بار کہے
دل کو یہ تکرار بھی اچھی لگتی ہے
منظر کی ویرانی کے اس موسم میں
خالی اک دیوار بھی اچھی لگتی ہے
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…