مُحبت میں ہماری اشک افشانی نہیں جاتی
بھری برسات ہے دریا کی طغیانی نہیں جاتی
مصیبت ٹل نہیں سکتی پریشانی نہیں جاتی
کسی کی بھی نصیحت عشق میں مانی نہیں جاتی
جو کل تک دَیر تھا ہم نے اسے کعبہ بنا ڈالا
مگر اس پر بھی اپنی کفر سامانی نہیں جاتی
مریضِ ہجر کو اب آپ پہچانیں تو پہچانیں
فرشتے سے اجل کے شکل پہچانی نہیں جاتی
تمہارا آستاں ہے اب ہماری آخری منزل
کسی بھی در کی ہم سے خاک اب چھانی نہیں جاتی
قیامت ہے تمہارا بن سنور کے سامنے آنا
مرا کیا ذکر ، آئینے کی حیرانی نہیں جاتی
وہی خودداریاں ہیں ، تمکنت ہے ، بے نیازی ہے
فقیری میں بھی اپنی شانِ سلطانی نہیں جاتی
یہ ممکن ہے ترے کوچے میں رہ کر جان سے جائیں
مگر تا مرگ تیرے در کی دربانی نہیں جاتی
تری رنجش ہو ، تیری بے رُخی ہو ، بد گمانی ہو
بڑی مشکل سے جاتی ہے بہ آسانی نہیں جاتی
تماری ناشناسائی کا شکوہ کیا کریں تم سے
ہمیں سے جب ہماری شکل پہچانی نہیں جاتی
جنونِ عشق سے جو بستیاں آباد ہوتی ہیں
بہاریں لاکھ آئیں اُنکی ویرانی نہیں جاتی
محبت تو نصیؔر ایسا طلاطم خیز دریا ہے
سفینے غرق ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…