مسلسل خوف کی، ڈر کی فراوانی نہیں جاتی
وہ میرا ھے تو کیوں میری پریشانی نہیں جاتی ؟
مجھے وہ کس طرح ڈھونڈ ے گا لوگوں کے سمندر میں
مری صورت تو اب مجھ سے بھی پہچانی نہیں جاتی
بظاہر بھول کر اُس کو میں ہنستا کھیلتا تو ہوں
مگر سچ تو ھے یہ، اندر کی ویرانی نہیں جاتی
مجھے و ہ مارنے والوں میں شامل ہو گیا کیسے
مری آنکھوں سے مر کر بھی یہ حیرانی نہیں جاتی
مرے دن رفتہ رفتہ ہو گئے کانٹوں بھرے جنگل
مری راتوں سے لیکن رات کی رانی نہیں جاتی
جدائی چاہتا ھے وہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے
محبت میں بھی ہر اِک بات تو مانی نہیں جاتی
ؔ اُس شخص کی چارہ گری میں شک نہیں لیکن
جو جاں میں بس گئی ھے، اب وہ بے جانی نہیں جاتی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…