لیتے تھے لطف ہم اَدَبی اختلاف کا
چیخوف اُسے پسند تھا اور مجھ کو کافکا
میں گھومتا ہوں، گھومتی کرسی پہ، دل کے گِرد
لیتا ہوں اجر، خانہِ رب کے طواف کا
مجھ کو سزا سنا دی گئی، دی بھی جا چکی
تو اب بھی منتظر ہے مرے اعتراف کا؟
اُس دل سے ہو کے نور مڑا جب مری طرف
سمجھا میں پہلی بار،اصول انعطاف کا
خلوت منائیں، دھیان لگائیں، دروں کو جائیں
موقع بھی دے رہی ہے وبا، اعتکاف کا
سردی تھی یا اندھیرے کا ڈر تھا کہ رات، خوف
کونا پکڑ کے بیٹھ گیا تھا لحاف کا
کندہ کیا ہے عشق نے اک زخم روح پر
کیسا نیا طریقہ ہے آٹو گراف کا
یکتائی کیا ہے، یہ تجھے سمجھائے گا وہ شخص
مرکز سمجھ چکا ہو جو کالے شگاف کا
دیکھو! تمام دل، ہمہ تن گوش ہیں، عمیر!
اب وقت ہو چکا ہے مرے انکشاف کا
عمیر نجمی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…