طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی
حالانکہ مِرا دِل تھا شگوفہ بھی شرر بھی
اُترا نہ گریباں میں مقدر کا ستارا
ہم لوگ لٹاتے رہے اشکوں کے گہر بھی
حق بات پہ کٹتی ہیں تو کٹنے دو زبانیں
جی لیں گے مِرے یار باندازِ دگر بھی
حیراں نہ ہو آئینہ کی تابندہ فضا پر
آ دیکھ ذرا زخمِ کفِ آئینہ گر بھی
سوکھے ہوئے پتوں کو اُڑانے کی ہوس میں
آندھی نے گِرائے کئی سر سبز شجر بھی
وہ آگ جو پھیلی میرے دامن کو جلا کر
اُس آگ نے پھونکا میرے احباب کا گھر بھی
محسنؔ یونہی بدنام ہوا شام کا ملبوس
حالانکہ لہو رنگ تھا دامانِ سحر بھی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…