زلف راتوں سی ہے رنگت ہے اجالوں جیسی
پر طبیعت ہے وہی بھلانے والوں جیسی
اک زمانے کی رفاقت پہ بھی رام – خوردہ ہے
اس کم آمیز کی خو بو ہے غزالوں جیسی
ڈھونڈتا پھرتا ہوں لوگوں میں شباہت اسکی
کے وہ خوابوں میں بھی لگتی ہے خیالوں جیسی
کس دل آزار مسافت سے میں لوٹا ہوں کے ہے
آنسوؤں میں بھی ٹپک پاؤں کے چھالوں جیسی
اسکی باتیں بھی دل آویز ہیں صورت کی طرح
میری سوچیں بھی پریشان میرے بالوں جیسی
اسکی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز
سونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی
احمد فراز
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…