خواب دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں
چلیے پہلے نہیں پوچھا تھا تو اب پوچھتے ہیں
کیسے خوش طبع ہیں اس شہر دل آزار کے لوگ
موج خوں سر سے گزر جاتی ہے تب پوچھتے ہیں
اہل دنیا کا تو کیا ذکر کہ دیوانوں کو
صاحبان دل شوریدہ بھی کب پوچھتے ہیں
خاک اڑاتی ہوئی راتیں ہوں کہ بھیگے ہوئے دن
اول صبح کے غم آخر شب پوچھتے ہیں
ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال
جتنے ہیں خاک بسر شہر کے سب پوچھتے ہیں
یہی مجبور یہی مہر بہ لب بے آواز
پوچھنے پر کبھی آئیں تو غضب پوچھتے ہیں
کرم مسند و منبر کہ اب ارباب حکم
ظلم کر چکتے ہیں تب مرضیٔ رب پوچھتے ہیں
افتخار عارف
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…