خطا مُعاف یہ کُچھ اور ہے حیاء تو نہیں
کہِیں یہ ترکِ تعلق کی ابتدا تو نہیں
یہ بات الگ ہے کہ آنکھوں کے بند ٹوٹ گئے
مگر زباں سے کبھی ہم نے کُچھ کہا تو نہیں
خطا تو جب ہو کہ ہم عرضِ مدعا بھی کریں
کسی کو چاہتے رہنا کوئی خطا تو نہیں
نصیب کیسے بدل دے کوئی سفینے کا
جو نا خُدا ہے وہ سب کُچھ سہی خُدا تو نہیں
جو بات دل میں ہے بے خوف کیوں نہیں کہتے
زبان و قلب میں کُچھ ایسا فاصلہ تو نہیں
شیوخِ شہر کو تم دیکھ کر پلٹ آئے
کسی سے پُوچھ تو لیتے وہ میکدہ تو نہیں
نہ جانے قافلے والے خفا ہیں کیوں مجھ سے
میں صرف ایک مسافر ہوں رہنما تو نہیں
قدم اٹھے ہیں تو منزل بھی مِل ہی جائے گی
میں بے بسر سہی لیکن شکستہ پا تو نہیں
حُضور آپ نے اقبال کو غلط سمجھا
وہ پارسا ہے مگر آدمی بُرا تو نہیں
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…