تمام شہر کو جام و سبو کا مسئلہ ہے
میں برگ خشک ہوں مجھ کو نمو کا مسئلہ ہے
ادھڑتی خواہشوں کو سی لیا ہے لیکن اب
پرانے زخم سے رستے لہو کا مسئلہ ہے
بہت سے بد نظر آنکھیں نہیں ہٹاتے ہیں
مرا نہیں یہ ہر اک خوبرو کا مسئلہ ہے
تمہاری بزم میں ہر رنگ کے مسائل ہیں
کہیں پہ چپ ، تو کہیں گفتگو کا مسئلہ ہے
ہمیں تو اور بھی کارِ جہاں میسر ہیں
ہر ایک شخص سے نفرت عدو کا مسئلہ ہے
یہ کھیل دیکھنا ناکام ہونے والا ہے
تماشہ گاہ میں جو ہاؤ ہو کا مسئلہ ہے
ذرا سا نیند کی چادر میں چھید دیکھا ہے
سو اہلِ خواب کو تب سے رفو کا مسئلہ ہے
کومل جوئیہ
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…