بےجا نَوازِشات کا بارِگراں نہیں
میں خُوش ہُوں اِس لِیے، کہ کوئی مہرباں نہیں
آغوشِ حادثات میں پائی ہے پروَرِش
جو برق پُھونک دے، وہ مِرا آشیاں نہیں
کیوں ہنس رہے ہیں راہ کی دُشوارِیوں پہ لوگ
ہُوں بے وَطن ضرُور، مگر بے نِشاں نہیں
گھبرائیے نہ گردشِ ایّام سے ہنوز
ترتیبِ فصلِ گُل ہے یہ، دَورِ خِزاں نہیں
کُچھ برق سَوز تِنکے مجھے چاہئیں، شکیبؔ
جُھک جائیں گُل کے بار سے، وہ ڈالیاں نہیں
شکیبؔ جَلالی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…