بَجُز ہَوا، کوئی جانے نہ سِلسِلے تیرے
میں اجنبی ہُوں، کرُوں کِس سے تذکرے تیرے
یہ کیسا قُرب کا موسم ہے، اے نگارِ چمن
ہَوامیں رنگ، نہ خوشبُو میں ذائقے تیرے
میں ٹھیک سے تِری چاہت تجھے جَتا نہ سکا
کہ میری راہ میں، حائل تھے مسئلے تیرے
کہاں سے لاؤں تِرا عکس اپنی آنکھوں میں
یہ لوگ دیکھنے آتے ہیں آئینے تیرے
گُلوں کو زخم، سِتاروں کو اپنے اشک کہُوں
سُناؤں خود کو، تِرے بعد تبصرے تیرے
یہ درد کم تو نہیں ہے، کہ تُو ہَمَیں نہ مِلا
یہ اور بات، کہ ہم بھی نہ ہو سکے تیرے
جُدائیوں کا تصور رُلا گیا تجھ کو
چراغ، شام سے پہلے ہی بُجھ گئے تیرے
ہزار نیند جلاؤں تِرے بغیر، مگر
میں خواب میں بھی نہ دیکھوں وہ رتجگے تیرے
ہَوائے موسمِ گُل کی ہیں لَورِیاں جیسے
بِکھر گئے ہوں فِضاؤں میں قہقہے تیرے
کسے خبر! کہ ہَمَیں اب بھی یاد ہیں، مُحسؔن
وہ کروَٹیں شبِ غم کی، وہ حوصلے تیرے
محسن نقوی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…