بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی
کہ میں تو میں ہی رہا تجھ سے دور جا کر بھی
میں سخت جان تھا اس کرب سے بھی بچ نکلا
میں جی رہا ہوں تجھے ہاتھ سے گنوا کر بھی
خدا کرے تجھے دوری ہی راس آ جائے
تو کیا کرے گا بھلا اب یہاں پر آ کر بھی
ابھی تو میرے بکھرنے کا کھیل باقی ہے
میں خوش نہیں ہوں ابھی اپنا گھر لٹا کر بھی
میں اس کو سطح سے محسوس کر کے بھی خوش ہوں
وہ مطمئن ہی نہیں میری تہہ کو پا کر بھی
ابھی تک اس نے کوئی بھی تو فیصلہ نہ کیا
وہ چپ ہے مجھ کو ہر اک طرح آزما کر بھی
اسی ہجوم میں لڑ بھڑ کے زندگی کر لو
رہا نہ جائے گا دنیا سے دور جا کر بھی
وہ لوگ اور ہی تھے جن کا عجز پھل لایا
ہمیں تو کچھ نہ ملا اپنے کو مٹا کر بھی
کھلا یہ بھید کہ تنہائیاں ہی قسمت ہیں
اک عمر دیکھ لیا محفلیں سجا کر بھی
غزل کہے پہ بھی سوچوں کا بوجھ کم نہ ہوا
سکوں نہ مل سکا احوال دل سنا کر بھی
رکا نہ ظلم مرے راکھ بننے پر بھی
ہوا کی خو تو وہی ہے مجھے جلا کر بھی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…