ایک تاریخِ مقرر پہ تُو ہر ماہ مِلے
جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ مِلے.
رنگ اکھڑ جاۓ تو ظاہر ہو پلستر کی نمی
قہقہہ کھود کے دیکھو تو تمہیں آہ ملے
جمع تھے رات میرے گھر ترے ٹھکراۓ ہوۓ
ایک درگاہ پہ سب راندۂ درگاہ ملے
ایک اداسی کے جزیرے پہ ہوں اشکوں میں گِھرا
میں نکل جاؤں اگر خشک گزرگاہ ملے
گھر پہنچنے کی نہ جلدی،نہ تمنا ہے کوئی
جس نے ملنا ہو مجھے آئے سرِ راہ ملے
(عمیر نجمی)
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…