Categories: GazalsSad Poetry

اپنوں نے وہ رنج دئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں

اپنوں نے وہ رنج دئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں
دیکھ کے اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں

اس نگری میں قدم قدم پہ سر کو جھکانا پڑتا ہے
اس نگری میں قدم قدم پر بت خانے یاد آتے ہیں

آنکھیں پر نم ہو جاتی ہیں غربت کے صحراؤں میں
جب اس رم جھم کی وادی کے افسانے یاد آتے ہیں

ایسے ایسے درد ملے ہیں نئے دیاروں میں ہم کو
بچھڑے ہوئے کچھ لوگ پرانے یارانے یاد آتے ہیں

جن کے کارن آج ہمارے حال پہ دنیا ہستی ہے
کتنے ظالم چہرے جانے پہچانے یاد آتے ہیں

یوں نہ لٹی تھی گلیوں دولت اپنے اشکوں کی
روتے ہیں تو ہم کو اپنے غم خانے یاد آتے ہیں

کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالبؔ
چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں

حبیب جالب

Haseeb Ahmed

Recent Posts

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…

3 years ago

اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام

اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…

3 years ago

سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا

سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا

3 years ago

دلِ گمشدہ

دلِ گمشدہ ! کبھی مل ذرا Continue readingدلِ گمشدہ

3 years ago

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…

3 years ago

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…

3 years ago