اِک پشیماں سی حسرت سے سوچتا ہے مجھے
اب وہی شـــہرِ مــحبت سے سوچتا ہے مجھے
میں تو محدود سے لمحوں میں ملی تھی اُس سے
پھر بھی وہ کتنی وضــاحت سے سوچتا ہے مجھے
جــــس نے ســـوچــا ہی نہ تھا ہجر کا مُــمکن ہونا
دُکھ میں ڈوبی ہوئی حیرت سے سوچتا ہے مجھے
میں تو مر جاؤں اگر سوچنے لگ جاؤں اُسے
اور وہ کتنی سُـہولت سے سوچتا ہے مجھے
گــرچــہ اب تـرکِ مــراسـم کو بــہت دیــر ہوئی
اب بھی وہ میری اجازت سے سوچتا ہے مجھے
کتنا خوش فہم ہے وہ شخص کہ ہر موسم میں
اِک نئے رُخ، نئی صــورت سے سوچتا ہے مجھے
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…