الٰہی مجھ کو تو ذوقِ مسیحائی عطا کر دے
جنوں کو تو مرے، مولا شکیبائی عطا کر دے
بنوں رہبر دکھاؤں راہ میں گمراہ لوگوں کو
مجھے وہ معرفت ، ایماں، وہ مولائی عطاکردے
مری بے نام منزل کو نشانِ راہ دے دے تو
مجھے تو ذات سے اپنی شناسائی عطا کر دے
الٰہی سوچ سے میری ،ہو روشن اک جہانِ نو
تخیل کو مرے تو ایسی گہرائی عطا کردے
نگہ میری اٹھے جس سمت دنیا ہی بدل جائے
مری بے نور آنکھوں کو ،وہ بینائی عطا کر دے
معطر روح ہو جس سے ، مسخر قلب ہو جس سے
زبان و نطق کو یارب ،وہ گویائی عطا کردے
زَمن جس سے منور ہو، چمن جس سے معطر ہو
مرے کردار کو مولا، وہ رعنائی عطا کر دے
خیالوں کو ملے تصویر اور تعبیر خوابوں کو
مرے وجدان کو یارب، وہ دانائی عطا کر دے
اگر چہ عجز سے ہوں میں تہی دامن ، کرم سے تُو
مرے بے ربط جملوں کو پذیرائی عطا کردے
ترے در پر ندامت سے ،جھکی ہے پھر جبیں میری
تمنائے حزیں کو اب، تو شنوائی عطا کر دے
ترا ہی نام ہو لب پر ، نہ ہو پھر دوسرا کوئی
نصرؔ کو اب تو وہ خلوت، وہ تنہائی عطا کردے
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…