اس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
ہجر کی رات بام پر ماہ تمام رکھ دیا
آمد دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی
میں نے بھی اک چراغ سا دل سر شام رکھ دیا
شدت تشنگی میں بھی غیرت مے کشی رہی
اس نے جو پھیر لی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا
اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا
دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حساب جاں بر سر عام رکھ دیا
اب کے بہار نے بھی کیں ایسی شرارتیں کہ بس
کبک دری کی چال میں تیرا خرام رکھ دیا
جو بھی ملا اسی کا دل حلقہ بگوش یار تھا
اس نے تو سارے شہر کو کر کے غلام رکھ دیا
اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…