یوں آرہا ہے آج لبوں پر کسی کا نام
ہم پڑھ رہے ہوں جیسے چُھپا کر کسی کا نام
سُنسان یُوں تو کب سے ہے کُہسارِ باز دِید
کانوں میں گوُنجتا ہے برابر کسی کا نام
دی ہم نے اپنی جان تو قاتِل بنا کوئی
مشہُور اپنے دَم سے ہے گھر گھر کسی کا نام
ڈرتے ہیں اُن میں بھی نہ ہو اپنا رقیب کوئی
لیتے ہیں دوستوں سے چُھپا کر کسی کا نام
اپنی زبان تو بند ہے، تم خود ہی سوچ لو
پڑتا نہیں ہے یونہی سِتمگر کسی کا نام
ماتم سَرا بھی ہوتے ہیں کیا خود غَرَض قتیل
اپنے غموں پہ روتے ہیں لے کر کسی کا نام
قتیل شفائی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…