ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے
تم ہی نہ سن سکے اگر قصۂ غم سنے گا کون
کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے
ہوش میں آ چکے تھے ہم جوش میں آ چکے تھے ہم
بزم کا رنگ دیکھ کر سر نہ مگر اٹھا سکے
رونق بزم بن گئے لب پہ حکایتیں رہیں
دل میں شکایتیں رہیں لب نہ مگر ہلا سکے
شوق وصال ہے یہاں لب پہ سوال ہے یہاں
کس کی مجال ہے یہاں ہم سے نظر ملا سکے
ایسا ہو کوئی نامہ بر بات پہ کان دھر سکے
سن کے یقین کر سکے جا کے انہیں سنا سکے
عجز سے اور بڑھ گئی برہمی مزاج دوست
اب وہ کرے علاج دوست جس کی سمجھ میں آ سکے
اہل زباں تو ہیں بہت کوئی نہیں ہے اہل دل
کون تری طرح حفیظؔ درد کے گیت گا سکے
حفیظ جالندھری
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…