ہر مرحلہ شوق سے لہر ا کے گزر جا
آثار تلاطم ہوں تو بل کھا کے گزر جا
بہکی ہوئی مخمور گھٹاؤں کی صدا سن
فردوس کی تدبیر کو بہلا کے گزر جا
مایوس ہیں احساس کی الجھی ہوئی راہیں
پائل دل مجبور کی چھنکا کے گزر جا
یزداں و اہرمن کی حکایات کے بدلے
انساں کی روایات کو دہرا کے گزر جا
کہتی ہیں تجھے میکدہ وقت کی راہیں
بگڑی ہوئی تقدیر کو سمجھا کے گذر جا
بجھتی ہی نہیں تشنگی دل کسی صورت
اے ابر کرم آگ ہی برسا کے گزرجا
کانٹے جو لگیں ہاتھ تو کچھ غم نہیں ساغر ؔ
کلیوں کو ہر ایک گام پہ بکھرا کے گزر جا
ساغر صدیقی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…