کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
پات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی
دل کو چمک سکے گا کیا، پھر بھی تراش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی
اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھئیے، بات تھی کچہ محال بھی
مری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا، بھول گیا سوال بھی
اس کی سخن طرازیاں مرے لئے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی
گاہ قریب شاہ رگ، گاہ امید دائم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات، ہجر بھی تھا وصال بھی
اس کے بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہش پہ تھے روح کے اور جال بھی
شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا
موج ہوائے کوئے یار، کچھ تو مرا خیال بھی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…