کوئی بہلائے باتوں سے مگر یہ ڈرتا رہتا ہے
دلِ برباد کی ہائے پریشانی نہیں جاتی
کسی بھی آشنا دستک پہ اب کھلتا نہیں ہے یہ
ترے جانے پہ دروازے کی حیرانی نہیں جاتی
قفس میں قید ہوتے ہیں کئی ارماں اڑانوں کے
رہا کر کے پرندے بھی پشیمانی نہیں جاتی
بدل جاتے ہیں سب چہرے سبھی اپنے پرایوں کے
حقیقی شکل بھی اب ہم سے پہچانی نہیں جاتی
بہت مجبور کرتا ہے ہمیں تیرے حوالے سے
کہ اب کچھ دل کے آگے عقل کی مانی نہیں جاتی
کسی آہٹ سے میرے خواب اور نیندیں گریزاں ہیں
تبھی تو میری آنکھوں کی یہ ویرانی نہیں جاتی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…