کبھی جب مدتوں کے بعد اُس کا سامنا ہو گا
سوائے پاس آدابِ تکلّف اور کیا ہو گا؟
یہاں وہ کون ہے جو انتخاب غم پہ قادر ہے
جو مل جائے وہی غم دوستوں کا مدعا ہو گا
نوید سر خوشی جب آئے گی اس وقت تک شاید
ہمیں زہرِ غم ہستی گوارا ہو چکا ہو گا
صلیبِ وقت پر میں نے پُکارا تھا محبت کو
میری آواز جس نے بھی سُنی ہو گی، ہنسا ہو گا
ابھی اِک شورِ ہائے و ہو سنا ہے ساربانوں نے
وہ پاگل قافلے کے ضِد میں پیچھے رہ گیا ہو گا
ہمارے شوق کے آسودہ و خُوشحال ہونے تک
تمھارے عارض و گیسُو کا سودا ہو چکا ہو گا
نوائیں، نکہتیں، آسودہ چہرے، دلنشیں رشتے
مگر اک شخص اس ماحول میں کیا سوچتا ہو گا
ہنسی آتی ہے مجھ کو مصلحت کے ان تقاضوں پر
کہ اب ایک اجنبی بن کر اُسے پہچاننا ہو گا
دلیلوں سے دوا کا کام لینا سخت مُشکل ہے
مگر اس غم کی خاطر یہ ہُنر بھی سیکھنا ہو گا
وہ منکر ہے تو پھر شاید ہر اک مکتوب شوق اس نے
سر انگشتِ حنائی سے خلاؤں میں لکھا ہو گا
ہے نصفِ شب، وہ دیوانہ ابھی تک گھر نہیں آیا
کسی سے چاندنی راتوں کا قصہ چھڑ گیا ہو گا
صبا! شکوہ ہے مجھ کو ان دریچوں سے ، دریچوں سے؟
دریچوں میں تو دیمک کے سوا اب اور کیا ہوگا
جون ایلیا
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…