ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام ، وائے تمنائے خام
پیرِ حرم نے کہا سن کے مری روئداد
پختہ ہے تیری فغاں ، اب نہ اسے دل میں تھام
تھا ارنی گو کلیم ، میں ارنی گو نہیں
اس کو تقاضا روا ، مجھ پہ تقاضا حرام
گرچہ ہے افشائے راز ، اہل نظر کی فغاں
ہو نہیں سکتا کبھی شیوۂِ رندانہ عام
حلقۂِ صوفی میں ذکر بے نم و بے سوز و ساز
میں بھی رہا تشنہ کام تو بھی رہا تشنہ کام
عشق تری انتہا عشق مری انتہا
تو بھی ابھی ناتمام میں بھی ابھی ناتمام
آہ کہ کھویا گیا تجھ سے فقیری کا راز
ورنہ ہے مالِ فقیر سلطنتِ روم و شام
علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ علیہ
کتاب: بالِ جبریل
(فرانس میں لکھے گئے)
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…