چیختے ہیں در و دیوار نہیں ہوتا میں
آنکھ کُھلنے پہ بھی بیدار نہیں ہوتا میں
ناؤ ہوں اور مرا ساحل سے بھی رشتہ ہے کوئی
یعنی دریا میں لگاتار نہیں ہوتا میں
خواب کرنا ہو سفر کرنا ہو یا رونا ہو
مجھ میں اک خوبی ہے بیزار نہیں ہوتا میں
کون آئے گا بھلا میری عیادت کے لیے
بس یہی سوچ کے بیمار نہیں ہوتا میں
اب بھلا اپنے لیے بننا سنورنا کیسا
تجھ سے ملنا ہو تو تیار نہیں ہوتا میں
تری تصویر تسلی نہیں کرتی میری
تری آواز سے سرشار نہیں ہوتا میں
عین ممکن ہے تری راہ میں مخمل ہو جاؤں
ہر کسی کے لیے ہموار نہیں ہوتا میں
تہذیب حافی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…