چشمِ ساقی نے یہ کیا کھیل رَچا رکھا ہے
کوئی زاہد تو کوئی مے خوار بنا رکھا ہے
جو پھنسا پھر نہ کبھی اس نے رہائی مانگی
تیری زُلفوں نے عجب جال بِچھا رکھا ہے
حُسن ہو ، یا عشق ہو دونوں کا اثر یکساں ہے
چیز ہے ایک ، مگر نام جُدا رکھا ہے
رُخ پہ لہراتی ہیں کبھی شانوں سے اُلجھ پڑتی ہیں
تُو نے زُلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے
تیری مخمور نگاہوں سے ہے رونق ساری
ورنہ ساقی تیرے مے خانے میں کیا رکھا ہے
میری نظروں میں کوئی کیسے جچے اے ساجدؔ
نسبتِ یار نے مغرور بنا رکھا ہے
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…