چاہا ہے تجھے میں نے تری ذات سے ہٹ کر
اس بار کھڑا ہوں میں روایات سے ہٹ کر
تم عشق کے قصے مجھے آکر نہ سناؤ
دنیا میں نہیں کچھ بھی مفادات سے ہٹ کر
جس شخص کو پوجا تھا اُسے مانگ رہا ہوں
میں مانگ رہا ہوں اُسے اوقات سے ہٹ کر
ہاں سوچ رہا ہوں میں تجھے اپنا بنا لوں
ہاں سوچ رہا ہوں میں خیالات سے ہٹ کر
واعظ نے کہا “عقل کہاں پر ہے تمھاری”
میں نے یہ کہا “خلد کے باغات سے ہٹ کر”
غم یہ ہے کہ میں اپنے قبیلے کا بڑا ہوں
چلنا ہی پڑے گا مجھے سقراط سے ہٹ کر
رہنا ہے مجھے اُس کی تمنا سے بہت دور
رہنا ہے مجھے ہجر کے حالات سے ہٹ کر
شہزاد مہدی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…