وفا ہو کر، جفا ہو کر، حیا ہو کر، ادا ہو کر
سمائے وہ میرے دل میں نہیں معلوم کیا ہو کر
میرا کہنا یہی ہے تو نہ رُخصت ہو خفا ہو کر
اب آگے تیری مرضی، جو بھی تیرا مُدعا ہو، کر
معاذاللّه! یہ عالم بتوں کی خود نمائی کا
کہ جیسے چھا ہی جائیں گے خدائی پر، خدا ہو کر
بہر صورت وہ دل والوں سے دل کو چھین لیتے ہیں
مچل کر، مسکرا کر، روٹھ کر، تن کر، خفا ہو کر
نہ چھوڑو ساتھ میرا ہجر کی شب ڈوبتے تارو
نہ پھیرو مجھ سے یوں آنکھیں، مرے غم آشنا ہو کر
اِنھیں پھر کون جانچے، کون تولے گا نگاہوں میں
اگر کانٹے رہیں گُلشن میں پھولوں سے جدا ہو کر
سنبھالیں اپنے دل کو ہم کہ روئیں اپنی قسمت کو
چلے ہیں اے نصیرِ زار، وہ ہم سے خفا ہو کر
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…