نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
کسی کام میں جو نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں
نہ دوائے درد جگر ہوں میں نہ کسی کی میٹھی نظر ہوں میں
نہ ادھر ہوں میں نہ ادھر ہوں میں نہ شکیب ہوں نہ قرار ہوں
مرا وقت مجھ سے بچھڑ گیا مرا رنگ روپ بگڑ گیا
جو خزاں سے باغ اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آ کے شمع جلائے کیوں میں وہ بیکسی کا مزار ہوں
نہ میں لاگ ہوں نہ لگاؤ ہوں نہ سہاگ ہوں نہ سبھاؤ ہوں
جو بگڑ گیا وہ بناؤ ہوں جو نہیں رہا وہ سنگار ہوں
میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
نہ میں ظفرؔ ان کا حبیب ہوں نہ میں ظفرؔ ان کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں
بہادر شاہ ظفر
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…