نجانے کیوں دلوں کے سلسلے پیہم نہیں ملتے
جہاں پر ہم میسر ہوں وہاں پر تم نہیں ملتے
یقیناً فاصلوں میں اک طرح سے جوش قربت ہے
کنارے ساتھ چلتے ہیں مگر باہم نہیں ملتے
ترستا ہے کوئی اک پل کی راحت کے لیے برسوں
کسی کو چاہ کر بھی زندگی میں غم نہیں ملتے
کہیں ملتا نہیں عشاق کو سامان دلجوئی
کہ اب معشوق کی زلفوں میں پیچ و خم نہیں ملتے
فقیروں کے قدم چومے ہمیشہ کجکلاہوں نے
خزانے خاک کے ذروں میں بھی کچھ کم نہیں ملتے
کسی بھی پیڑ پر کردار کے اب پھل نہیں لگتا
مزاجوں میں مروت کے وہ اب موسم نہیں ملتے
خیالوں کے سفر نے تو ہمیں لٹکا دیا عابد
فلک ہم سے نہیں ملتا , زمیں سے ہم نہیں ملتے
عابد بنوی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…