نجانے کیوں دلوں کے سلسلے پیہم نہیں ملتے

نجانے کیوں دلوں کے سلسلے پیہم نہیں ملتے
جہاں پر ہم میسر ہوں وہاں پر تم نہیں ملتے

یقیناً فاصلوں میں اک طرح سے جوش قربت ہے
کنارے ساتھ چلتے ہیں مگر باہم نہیں ملتے

ترستا ہے کوئی اک پل کی راحت کے لیے برسوں
کسی کو چاہ کر بھی زندگی میں غم نہیں ملتے

کہیں ملتا نہیں عشاق کو سامان دلجوئی
کہ اب معشوق کی زلفوں میں پیچ و خم نہیں ملتے

فقیروں کے قدم چومے ہمیشہ کجکلاہوں نے
خزانے خاک کے ذروں میں بھی کچھ کم نہیں ملتے

کسی بھی پیڑ پر کردار کے اب پھل نہیں لگتا
مزاجوں میں مروت کے وہ اب موسم نہیں ملتے

خیالوں کے سفر نے تو ہمیں لٹکا دیا عابد
فلک ہم سے نہیں ملتا , زمیں سے ہم نہیں ملتے

عابد بنوی

Haseeb Ahmed

Recent Posts

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…

3 years ago

اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام

اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…

3 years ago

سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا

سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا

3 years ago

دلِ گمشدہ

دلِ گمشدہ ! کبھی مل ذرا Continue readingدلِ گمشدہ

3 years ago

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…

3 years ago

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…

3 years ago