میرے کشکول میں بس سکۂ رد ہے حد ہے
پھر بھی یہ دل مرا راضی بہ مدد ہے حد ہے
غم تو ہیں بخت کے بازار میں موجود بہت
کاسۂ جسم میں دل ایک عدد ہے حد ہے
آج کے دور کا انسان عجب ہے یا رب
لب پہ تعریف ہے سینے میں حسد ہے حد ہے
تھا مری پشت پہ سورج تو یہ احساس ہوا
مجھ سے اونچا تو مرے سائے کا قد ہے حد ہے
مستند معتمد دل نہیں اب کوئی یہاں
محرم راز بھی محروم سند ہے حد ہے
میں تو تصویر جنوں بن گیا ہوتا لیکن
مجھ کو روکے ہوئے بس پاس خرد ہے حد ہے
رنگ اخلاص بھروں کیسے مراسم میں ندیمؔ
اس کی نیت بھی مری طرح سے بد ہے حد ہے
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…