لبوں پہ حرفِ رجز ہے زرہ اتار کے بھی
میں جشنِ فتح مناتا ہوں جنگ ہار کے بھی
اسے لبھا نہ سکا میرے بعد کا موسم
بہت اداس لگا خال و خد سنوار کے بھی
اب ایک پل کا تغافل بھی سہہ نہیں سکتے
ہم اہلِ دل کبھی عادی تھے انتظار کے بھی
وہ لمحہ بھر کی کہانی کہ عمر بھر میں کہی
ابھی تو خود سے تقاضے تھے اختصار کے بھی
زمین اوڑھ لی ہم نے پہنچ کے منزل پر
کہ ہم پہ قرض تھے کچھ گردِ رہ گزار کے بھی
مجھے نہ سن مرے بے شکل اب دکھائی تو دے
میں تھک گیا ہوں فضا میں تجھے پکار کے بھی
مری دعا کو پلٹنا تھا پھر ادھر محسنؔ
بہت اجاڑ تھے منظر افق سے پار کے بھی
محسن نقوی
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…