فراز اب کوئی سودا کوئی جنوں بھی نہیں
مگر قرار سے دن کٹ رہے ہوں یوں بھی نہیں
لب و دہن بھی ملا گفتگو کا فن بھی ملا
مگر جو دل پہ گزرتی ہے کہہ سکوں بھی نہیں
نہ جانے کیوں مری آنکھیں برسنے لگتی ہیں
جو سچ کہوں تو کچھ ایسا اداس ہو ں بھی نہیں
مری زباں کی لکنت سے بدگمان نہ ہو
جو تو کہے تو تجھے عمر بھر ملوں بھی نہیں
دکھوں کے ڈھیر لگے ہیں کہ لوگ بیٹھے ہیں
اسی دیار کا میں بھی ہوں اور ہوں بھی نہیں
فراز جیسے دیا قربتِ ہوا چاہے
وہ پاس آۓ تو ممکن ہے میں رہوں بھی نہیں
احمد فراز
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…