عشق میں لا جواب ہیں ہم لوگ
ماہتاب آفتاب ہیں ہم لوگ
گرچہ اہلِ شراب ہیں ہم لوگ
یہ نہ سمجھو خراب ہیں ہم لوگ
شام سے آ گئے جو پینے پر
صبح تک آفتاب ہیں ہم لوگ
ہم کو دعوائے عشق بازی ہے
مستحق عذاب ہیں ہم لوگ
ناز کرتی ہے خانہ ویرانی
ایسے خانہ خراب ہیں ہم لوگ
ہم نہیں جانتے خزاں کیا ہے
کشتگانِ شباب ہیں ہم لوگ
تو ہمارا جواب ہے تنہا
اور تیرا جواب ہیں ہم لوگ
تو ہے دریائے حسن و محبوبی
شکل موج و حباب ہیں ہم لوگ
گو سراپا حجاب ہیں پھر بھی
تیرے رخ کی نقاب ہیں ہم لوگ
خوب ہم جانتے ہیں اپنی قدر
تیرے نا کامیاب ہیں ہم لوگ
ہم سے غفلت نہ ہو تو پھر کیا ہو
رہروِ ملکِ خواب ہیں ہم لوگ
جانتا بھی ہے اس کو تو واعظ
جس کے مست و خراب ہیں ہم لوگ
ہم پہ نازل ہوا صحیفۂ عشق
صاحبانِ کتاب ہیں ہم لوگ
ہر حقیقت سے جو گزر جائیں
وہ صداقت مآب ہیں ہم لوگ
جب ملی آنکھ ہوش کھو بیٹھے
کتنے حاضر جواب ہیں ہم لوگ
ہم سے پوچھو جگرؔ کی سر مستی
محرمِ آں جناب ہیں ہم لوگ
(جگر مراد آبادی)
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…