عجیب دن ہیں مرے اور عجب اداسی ہے
ترے بغیر مرے یار سب اداسی ہے
مجھے نواز کوئی ہجر سے بھرا ہوا عشق
میں وہ فقیر ہوں جس کی طلب اداسی ہے
کبھی کبھی تو الف لام میم کھلتا ہے
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے رب اداسی ہے
ہماری مستی الستی ہمارا سوگ بہشت
ہمارے ہونے کا شاید سبب اداسی ہے
اک اور لہر بھی ہوتی ہے لہر کے اندر
اسی لیے تو میاں زیر لب اداسی ہے
تری کمی کا بھی اب دن منائیں گے ہم لوگ
اور اس کا نام رکھیں گے غضب اداسی ہے
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…