عالمِ عشق سے اِس ہجر میں لایا ہُوا ہُوں
آخری اَشک ہوں اور آنکھ میں آیا ہُوا ہُوں
میرے اصراف سے پرہیز کیا جاۓ کہ میں
عہدِ افلاس میں مُشکل سے کمایا ہُوا ہُوں
روح سے روح کا رشتہ بھی بجا ہے لیکن
میں ابھی جسم کی تقریب میں آیا ہُوا ہُوں
جو بھی آتا ہے وہ پیاسا ہی چلا جاتا ہے
میں وہ دریا ہوں جو نظروں سے گرایا ہوا ہوں
کم سے کم تُو تو مِری زات پہ اُنگلی نہ اُٹھا
لاکھ سورج ہوں مگر تجھ پہ تو سایہ ہوا ہوں
مجھ کو تقدیر سے شکوہ ہے نہ قسمت سے گلہ
میں وہ بدبخت جو دانستہ گنوایا ہوا ہوں
ہو چُکے مسخ خدوخال مِرے چہرے کے
میں وہ لاش ہوں جو گلیوں میں پھرایا ہوا ہوں
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…