سرِ صحرا حباب بیچے ہیں
لبِ دریا سراب بیچے ہیں
اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں
خود سوال ان لبوں سے کر کےمیں
خود ہی ان کے جواب بیچے ہیں
زلف کوچوں میں شانہ کش نے تیرے
کتنے ہی پیچ و تاب بیچے ہیں
شہر میں ہم خراب حالوں نے
حال اپنے خراب بیچے ہیں
جانِ من تیری بے نقابی نے
آج کتنے نقاب بیچے ہیں
میری فریاد نے سکوت کے ساتھ
اپنے لب کے عذاب بیچے ہیں
جون ایلیا
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…