دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
زندہ ہوں مگر زیست کی لذت نہیں باقی
ہرچند کہ ہوں ہوش میں ہشیار نہیں ہوں
اس خانۂ ہستی سے گزر جاؤں گا بے لوث
سایہ ہوں فقط نقش بہ دیوار نہیں ہوں
افسردہ ہوں عبرت سے دوا کی نہیں حاجت
غم کا مجھے یہ ضعف ہے بیمار نہیں ہوں
وہ گل ہوں خزاں نے جسے برباد کیا ہے
الجھوں کسی دامن سے میں وہ خار نہیں ہوں
یا رب مجھے محفوظ رکھ اس بت کے ستم سے
میں اس کی عنایت کا طلب گار نہیں ہوں
گو دعوی تقوی نہیں درگاہ خدا میں
بت جس سے ہوں خوش ایسا گنہ گار نہیں ہوں
افسردگی و ضعف کی کچھ حد نہیں اکبرؔ
کافر کے مقابل میں بھی دیں دار نہیں ہوں
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…