دستِ شب پر دِکھائی کیا دیں گی
سلوٹیں روشنی میں اُبھریں گی
گھر کی دیواریں میرے جانے پر
اپنی تنہائیوں کو سوچیں گی
اُنگلیوں کو تراش دوُں، پھر بھی
عادتاً اُس کا نام لکھیں گی
رنگ و بوُ سے کہیں پناہ نہیں
خواہشیں بھی کہاں اَماں دیں گی
ایک خوشبوُ سے بچ بھی جاؤں اگر
دوُسری نکہتیں جکڑ لیں گی
خواب میں تِتلیاں پکڑنے کو
نیندیں بچوں کی طرح دوڑیں گی
کِھڑکیوں پر دبیز پردے ہوں
بارشیں پھر بھی دستکیں دیں گی
پروین شاکر
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…